اخلاق کا بیان
ج- احسان یہ ہے کہ ہمیشہ اللہ تعالی کو یاد رکھیں اور مخلوقات کے ساتھ بھلائی کا برتاؤ کریں۔
نبیﷺ کا فرمان ہے: "بے شک اللہ نے ہر کام کو اچھے طریقے سے کرنا ضروری قرار دیا ہے"۔ [صحیح مسلم]
احسان کی چند شکلیں مندرجۂ ذیل ہیں:
عبادت میں احسان یعنی اخلاص کے ساتھ عبادتیں انجام دینا۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک قول عمل کے ذریعہ۔
قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک۔
پڑوسی کے ساتھ نیک برتاؤ۔
یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا سلوک۔
بد اخلاقوں کے ساتھ بھی اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنا۔
اچھی بات کرنا۔
بہترین طریقہ سے بحث وگفتگو کرنا۔
جانوروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔
ج-
1- اللہ تعالی کے حقوق کی حفاظت میں امانت داری کرنا۔
اس امانت کی مختلف شکلیں ہیں جن میں نماز، زکوۃ، روزہ، حج اور سارے فرائض اور عبادتیں شامل ہیں۔
2- امانت کی دوسری قسم حقوق خلق کے تحفظ سے متعلق ہے:
جیسے لوگوں کی عزت وآبرو کا تحفظ۔
ان کے مال کی حفاظت۔
ان کی جان کا تحفظ۔
راز داری اورتمام وہ چیزیں جس پر لوگ آپ کو امین بنائیں اس کی حفاظت۔
کامیاب لوگوں کی صفت بیان کرتے ہوۓ اللہ تعالی نے فرمایا: (اور جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں)۔ [سورہ مومنون: 8]
ج- کسی چیز کے بارے میں وہی بیان کرنا جو اس کی حقیقت ہو۔
اس کی بھی مختلف شکلیں ہیں، جیسے:
لوگوں سے سچ بولنا۔
سچا وعدہ کرنا۔
ہر قول وعمل میں سچا ہونا۔
نبی علیہ الصلاۃ والسلام کا فرمان ہے: سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف اور انسان مسلسل سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کا شمار صدیقوں (سچے لوگوں) میں ہو جاتا ہے"۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم۔
ج- جھوٹ جو کہ حقیقت کے بر خلاف ہوتا ہے جیسے لوگوں سے جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔
نبیﷺ کا فرمان ہے: (جھوٹ گناہ کے راستے پر چلاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے‘ انسان مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کا قصد کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی کے نزدیک اسے جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے)۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم۔ نبی علیہ الصلاۃ والسلام کا فرمان ہے: "منافق کی نشانیاں تین ہیں" -اور ان میں سے ایک نشانی یہ بتائی کہ- "جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور وعدہ کرکے نہ نبھاۓ"۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم۔
ج- اللہ تعالی کی اطاعت گزاری میں صبر کا دامن تھامے رکھنا۔
- گناہوں سے بچتے وقت صبر کرنا۔
تقدیر کے جان کاہ فیصلوں پر صبر کرتے ہوۓ ہر حال میں اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کرنا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (اور اللہ تعالی صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے)۔ [سورۂ آل عمران: ١٤٦] نبی علیہ الصلاۃ والسلام کا فرمان ہے: (مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کے ہر کام میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے، اگر اسے کوئى خوشى والى چیز حاصل ہوتى ہے اور اس پر وہ شکر کرتا ہے تو یہ شکر کرنا اس کے لیے باعث خیر ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف دہ بات لاحق ہوتی ہے اور اس پر صبر کرتا ہے تو یہ صبر کرنا بھی اس کے لیے باعث خیر ہے)۔ [صحیح مسلم]
ج- عبادت واطاعت میں صبر نہ کرنا، گناہوں سے بچتے وقت صبر نہ کرنا اور تکلیف دہ تقدیروں پہ بات یا فعل سے ناراضگی کا اظہار کرنا۔
بے صبری کی کچھ شکلیں یوں ہیں:
موت کی تمنا کرنا۔
چہرے پیٹنا۔
کپڑے پھاڑنا۔
بال بکھیرنا۔
خود کو ہلاکت کی بد دعا دینا۔
نبی علیہ الصلاۃ والسلام کا فرمان ہے: "آزمائش جتنی بڑی ہوتی ہے، اس کا بدلہ بھی اسی قدر بڑا ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو پسند فرماتا ہے، تو اس کو آزمائشوں سے دوچار فرماتا ہے، پس جو کوئی راضی و خوش رہے تو اسے رضا وخوشى ملتى ہے اور جو کوئی خفا ہوتو اسے ناراضگى ہى ملتى ہے۔" اسے ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
ج- اس سے مراد ہے لوگوں کا حق اور خیر کی باتوں میں ایک دوسرے کا تعاون کرنا۔
تعاون کی صورتیں:
حقوق کو لوٹانے کے سلسلہ میں تعاون کرنا۔
ظالم کے ظلم کو روکنے میں تعاون کرنا۔
لوگوں اور مساکین کی حاجت روائی میں تعاون کرنا۔
ہر بھلائی میں تعاون کرنا۔
ظلم وزیادتی اور گناہ کے کاموں میں تعاون نہ کرنا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ایک دوسرے کی مدد، نیکی اور تقوى میں کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔‘‘ [سورہ مائدۃ : ٢] نبی علیہ الصلاۃ والسلام کا فرمان ہے: "الْمُؤْمنُ للْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشدُّ بعْضُهُ بَعْضًا" ”ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی مانند ہے جس کا بعض حصہ بعض حصہ کو تقویت پہنچاتا ہے۔“ صحیح بخاری وصحیح مسلم۔ نبی علیہ الصلاۃ والسلام کا فرمان ہے: "ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے بے سہارا چھوڑے، جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرے گا، جو شخص کسی مسلمان کی ایک مصیبت کو دور کرےگا اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مصیبتوں میں سے ایک بڑی مصیبت کو دور فرمائے گا،اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب کو چھپائے گا"۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم۔
ج- 1- اللہ تعالی سے حیا، کہ آپ اس کی نافرمانی نہ کریں۔
2- لوگوں سے حیا، فحش کلامی چھوڑنا اورستر نہ کھولنااس میں شامل ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ایمان کی بہتر سے زیادہ شاخیں ہیں یا فرمایا کہ ایمان کی باسٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں جن میں سے افضل ترین شاخ لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے کم درجہ کی شاخ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک عظیم شاخ ہے۔ [صحیح مسلم]
ج- بڑوں کا احترام کرنا اور ان پہ مہربان ہونا۔
- چھوٹوں پر شفقت کرنا۔
- فقیر، مسکین اور ضرورتمند کی غم گساری کرنا۔
- جانوروں پہ رحم کرنا، کہ انہیں کھلائے اور تکلیف نہ دے۔
اس سلسلہ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مومنوں کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت و مودّت اور باہمی ہمدردی کی مثال جسم کی طرح ہے کہ جب اس کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے بایں طور کہ نیند اڑ جاتی ہے اور پورا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے)۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم۔ رسول اللہ ﷺ نے مزید فرمایا: (رحم کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو، تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا)۔ امام ابوداود اور امام ترمذی نے اسے روایت کیا ہے۔
۱-اللہ تعالی سے محبت۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور ایمان والے سبے سے زیادہ اللہ سے محبت کرتے۔‘‘ [سورۂ بقرۃ : ١٦٥]
۲-رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت۔
آپ ﷺ نے فرمایا: (قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کےنزدیک اس کے والدین اور آل واولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں)۔ (صحیح بخاری)
۳-مومنوں سے محبت کرنا اور ان کے لیے وہی پسند کرنا جو خود کو پسند ہو۔
نبی علیہ الصلاۃ والسلام کا فرمان ہے: (تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند کرے، جو اپنے لئے کرتا ہو)۔ (صحیح بخاری)
ج- خندہ پیشانی اور نرم مزاجی کے ساتھ خوش ہو کر مسکراتے ہوۓ لوگوں سے ملنا۔
بر خلاف ترش روئی کے جس سے لوگ متنفر ہو جاتے ہیں۔
اس کی فضیلت میں کئی حدیثیں وارد ہوئی ہیں، ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: (کسی نیکی کو ہر گز حقیر مت جانو، خواہ یہ تمہارا اپنے بھائی کے ساتھ خوش باش چہرے کے ساتھ ملنا ہی کیوں نہ ہو)۔ [صحیح مسلم] رسول اللہ ﷺ نے مزید فرمایا: (اپنے بھائی سے ملتے وقت مسکرانا بھی صدقہ ہے)۔ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
ج- حسد یہ ہے کہ دوسرے کی نعمت کے چھن جانے کی تمنا کرنا یا دوسرے کی نعمت کو نا پسند کرنا۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے: {اور (میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں) ہر حسد کرنے والے کی برائی سے جب وہ حسد کرے}۔ [سورۂ فلق: 5]۔
اور انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، نہ حسد کرو، نہ منہ پھیرو بلکہ -اللہ کے بندوں- بھائی بھائی بن جاؤ"۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
ج- اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جاننا اور اس کا مذاق اڑانا جو کہ جائز نہیں ہے۔
اس کی ممانعت کے سلسلہ میں اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: "اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں، اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو، ایمان کے بعد فسق برا نام ہے، اور جو توبہ نہ کریں وہی ﻇالم لوگ ہیں"۔ [سورۂ حجرات: ١١]
ج- تواضع یہ ہے کہ انسان خود کو کسی سے برتر نہ سمجھے، نہ لوگوں کو حقیر جانے اور نہ حق سے رو گردانی کرے۔
اللہ تعالی نے فرمایا : (رحمن کے (سچے) بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں)۔ [سورۂ فرقان: 63]۔ یعنی تواضع کے ساتھ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو بھی اللہ تعالی کے واسطے تواضع اختیار کرے گا اللہ تعالی اسے بلند مقام عطا کرے گا"۔ [صحیح مسلم] نیز فرمایا: "الله تعالی نے مجھ پر وحی نازل کی ہے کہ تم سب تواضع اختیار کرو یہاں تک کہ تم میں سے کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور نہ ہی کوئی کسی پر ظلم کرے"۔ [صحیح مسلم]
ج- 1- کبر وغرور کا مظاہرہ کرتے ہوۓ حق سے رو گردانی کرنا اور اسے قبول نہ کرنا۔
2- لوگوں پرگھمنڈ کرنا اور انہیں کمتر وحقیر جاننا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہوگا"۔ ایک شخص نے کہا کہ آدمی کو یہ پسند ہوتا ہے کہ اس کے پاس عمدہ لباس اور اچھے جوتے ہوں، تو آپ نے فرمایا: "اللہ تعالی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے، تکبر یہ ہے کہ حق کا انکار کیا جاۓ اور لوگوں کو حقیر سمجھا جاۓ"۔ [صحیح مسلم]
مذکورہ حدیث میں وارد لفظ "بَطَرُ الحَقِّ" کا معنى ہے: حق انکار کرنا۔
اور حدیث میں وارد لفظ "غَمْطُ النَّاسِ" کا معنى ہے: لوگوں کو حقیر سمجھنا-
اچھے جوتے اور اچھے کپڑے تکبر میں شامل نہیں ہیں۔
ج- خرید وفروخت میں دھوکہ بازی یعنی سامان کی کمیوں کو چھپانا۔
- طلب علم کے سلسلہ میں دھوکا دینا جیسے بچوں کا امتحانوں میں چیٹنگ کرنا۔
- باتوں میں فریب جیسے جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا۔
اپنی بات کی خلاف ورزی کرنا اور لوگوں کے ساتھ اتفاق کرنے کے بعد اس سے مکر جانا۔
دھوکہ اور فریب کی ممانعت کے سلسلہ میں یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غلہ کے ڈھیر کے پاس آۓ، آپ نے اس میں ہاتھ ڈالا تو آپ کی انگلیاں تر ہو گئیں، آپ نے دریافت کیا: "یہ کیا ہے؟" غلہ والے نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول! بارش میں بھیگ گیا تھا، آپ نے فرمایا: "تو پھر اسے اوپر کیوں نہیں رکھا کہ لوگ دیکھ سکتے؟ جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں"۔ [صحیح مسلم]
مذکورہ حدیث میں وارد لفظ "صبرۃ" کا معنى ہے: غلہ کا ڈھیر۔
اپنے غیر موجود مسلم بھائی کو ایسى چیزوں کے ساتھ یاد کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (اور نہ تم میں سے کوئي کسی کی غیبت کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آۓ گی،اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے)۔ [سورۂ حجرات: ١٢]
ج- سستی سے مراد یہ ہے کہ انسان نیکی کے کاموں کو کرنے کو اور واجب حقوق کی ادائیگی کو بوجھ محسوس کرے۔
اور اسی طرح دین کے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کرنا۔
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے : (بے شک منافق اللہ سے چالبازیاں کررہے ہیں اور وہ انھیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے، اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہو تے ہیں، صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یادِ الٰہی تو یونہی سی برائے نام کرتے ہیں) [سورۂ نساء: ١٤٢]
سو مومن کے لئے لازم ہے کہ وہ سستى وکاہلی کو درکنار کرے اور نہ ہی اس کو زیبا ہے کہ بے کار بیٹھا رہے بلکہ اسے چاہیے کہ اس زندگی میں خوب تگ ودو کرے اور ہر دم اللہ تعالی کی رضا کی تلاش میں جد وجہد کرتا رہے۔
ج- 1- ایسا غصہ جو قابل تعریف ہے: کہ جب کافر، منافق یا کوئی اور اللہ تعالی کی حرمتوں کو پامال کرے تو محض اللہ تعالی کی خاطر غصہ آۓ۔
2- ایسا غصہ جو قابل مذمت ہے: جس میں انسان نا روا حرکتیں اور نا گوار باتیں کر بیٹھتا ہے۔
قابل مذمت غصہ کا علاج:
وضو کرنا۔
کھڑا ہو تو بیٹھ جاۓ اور بیٹھا ہو تو لیٹ جاۓ۔
اس سلسلہ میں نبی صلی اللہ کی وصیت (غصہ نہ کرو) کو لازم پکڑے۔
غصہ کو ضبط کرنے کی کوشش کرے۔
شیطان مردود کے شر سے اللہ کی پناہ چاہے۔ (أعوذ بالله من الشيطان الرجيم) پڑھے۔
خاموش رہے۔
ج- اسراف (فضول خرچی) ناحق خرچ کرنے کو کہتے ہیں۔
اور اس کی ضد بخیلی ہے جس کے معنی ہیں خرچ کرنے کی جگہ پر بھی خرچ نہ کرنا۔
اور صحیح راستہ درمیانی راستہ ہے اور ایک مسلمان کو سخی ہونا چاہیے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (اور جو خرچ کرتے وقت بھی نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی، بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقہ پر خرچ کرتے ہیں)۔ [سورسورۂ فرقان: 67]۔
ج- بز دلی یہ ہے کہ انسان اس چیز سے بھی خوف کھاۓ جس سے خوف نہیں کھانا چاہیے۔
جیسے حق بات کہنا اور منکر کا انکار کرنا۔
دلیری: حق باتوں میں پیش رفت کرنا جیسے اسلام اور اہل اسلام کے دفاع میں میدان کار زار میں پیش قدمی کرنا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعاؤں میں فرماتے تھے: (اے اللہ! میں بز دلی سے تیری پناہ مانگتا ہوں)۔ رسول اللہ ﷺ نے مزید فرمایا: (کمزور مومن کی نسبت طاقتور مومن بہتر اور اللہ کو زیادہ پیارا ہے البتہ خیر کا پہلو دونوں میں ہے)۔ [صحیح مسلم]
ج- - جیسے لعن طعن کرنا اور گالی دینا۔
اور جیسے: فلاں حیوان ہے وغیرہ الفاظ کہنا۔
- یا شرم گاہ وغیرہ کا ذکر کرتے ہوۓ گندی اور فحش باتیں کرنا۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام چیزوں سے منع کرتے ہوۓ فرمایا: (مومن طعن وتشنیع کرنے والا، بکثرت لعنت کرنے والا، فحاش اور بدگو نہیں ہوتا)۔ اسے ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
ج- 1- یہ دعا کرنا کہ اللہ تعالی آپ کو حسن اخلاق کی توفیق دے اور اس پر تمہاری مدد کرے۔
2- ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھنا کہ اللہ تعالی آپ سے باخبر ہے، آپ کو سنتا اور دیکھتا ہے۔
3- حسن اخلاق کے ثواب کو یاد کرنا اور یہ یاد رکھنا کہ یہ جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے۔
4- یاد رکھنا کہ برے اخلاق کا انجام برا ہے اور وہ جہنم میں جانے کا سبب ہے۔
5- یہ بات ذہن نشیں رکھنا کہ اچھے اخلاق سے اللہ اور اس کے بندوں کی محبت حاصل ہوتی ہے اور برے اخلاق سے اللہ اور اس کے بندوں کی نفرت۔
6- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرنا اور ان کی پیروی کرنا۔
7- نیک نوگوں کی صحبت اختیار کرنا اور برے لوگوں سے دور رہنا۔