عقیدہ کا بیان

ج- میرا رب اللہ تعالی ہے جس نے اپنى نعمتوں کے ذریعے میرى اور سارے جہان والوں کى پرورش وپرداخت کى ہے اور سارى آسانیاں بہم پہوںچائى ہیں۔
اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:
(ساری تعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہاں کا رب ہے)۔ [سورۂ فاتحہ: 2]۔

ج- میرا دین اسلام ہے، اسلام: توحید کے ذریعے اللہ کے سامنے خود سپردگی، اطاعت کے ذریعے اس کی فرماں برداری اور شرک و مشرکین سے براءت کا نام ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے"۔ [سورۂ آل عمران: 19]

ج- محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(محمد اللہ کے رسول ہیں)۔ [سورۂ فتح: 29]

کلمۂ توحید ''لا إله إلا الله'' ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی برحق معبود نہیں ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں)۔ [سورۂ محمد: 19]

ج- اللہ تعالی بلندی میں تمام مخلوقات سے اوپر عرش پر ہے،اللہ تعالی کا فرمان ہے: ( رحمٰن عرش پر مستوى ہے)۔ [سورۂ طہ: 5] مزید ارشاد فرمایا: (اور وہی اللہ اپنے بندوں کے اوپر غالب ہے برتر ہے اور وہی بڑی حکمت والا اور پوری خبر رکھنے والا ہے) [ سورۂ أنعام: 18]

ج- اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں اور جنوں کے لیے ڈرانے والا اور خوش خبری دینے والا بنا کر بھیجا ہے۔
اور یہ واجب ہے کہ:

1- رسول صلى اللہ علیہ سلم کے حکم کی تعمیل کی جاۓ۔
2- جن چیزوں کی آپ نے خبر دی ہے اس میں آپ کى تصدیق کی جاۓ۔
3- آپ کی نافرمانی نہ کی جاۓ۔
4- ہر عبادت آپ کی شریعت کے مطابق کی جاۓ، یعنی بدعت کو چھوڑ کر ان کی سنت کی پیروی کی جاۓ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(جس نے رسول کی اطاعت کی یقینا اس نے اللہ کی اطاعت کی) [سورۂ نساء: 80]۔ اوردوسری جگہ فرمایا: (اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں،وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے) [سورۂ نجم: 3، 4] دوسری جگہ اللہ جل ذکرہ نے فرمایا: (یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے)۔ [سورۂ احزاب: 21]

ج- اللہ تعالی جس کا کوئی شریک نہیں،اس نے ہمیں اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔
کھیل تماشہ کے لیے نہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"اور میں نے جن وانس کو صرف اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں" [56] [سورۂ ذاريات: 56]

ج- عبادت ایک جامع لفظ ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام محبوب و پسندیدہ، ظاہری و باطنی اقوال و افعال کو شامل ہے۔
ظاہری:
جیسے زبان سے حمد وثنا اور تسبیح وتکبیر کے الفاظ کہنا، نماز اور حج۔
باطنی:
جیسے توکل، ڈر اور امید۔

ج- ہم پر عظیم ترین واجب اللہ تعالی کی توحید ہے۔

ج- 1- توحید ربوبیت: اس سے مراد اس بات پر ایمان لانا ہے کہ اللہ تعالی ہی خالق، رازق، مالک اور تدبیر کرنے والا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔
2- توحید الوہیت: اس کے معنی ہیں صرف اللہ تعالی کی عبادت کرنے کے، چنانچہ اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کی جا سکتی۔
3- توحید اسما وصفات: اس کا مطلب اللہ تعالی کے ان تمام اسما وصفات پر ایمان لانا ہے جو قرآن وحدیث میں وارد ہوۓ ہیں بغیر کسی تمثیل، تشبیہ یا تعطیل کے۔
توحید کے تینوں اقسام کی دلیل یہ آیت ہے:
(آسمانوں کا، زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب وہی ہے تو اسی کی بندگی کر اور اس کی عبادت پر جم جا، کیا تیرے علم میں اس کا ہمنام ہم پلہ کوئی اور بھی ہے؟)۔ [سورۂ مریم: 65]۔

ج- اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جس کے لئے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناه اور بہتان باندھا"۔ [سورۂ نساء: 48]

شرک: اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کے لئے کسی بھی قسم کی بندگی بجا لانے کو کہتے ہیں۔
شرک کی قسمیں:
شرک اکبر: جیسے غیر اللہ کو پکارنا،غیر اللہ کو سجدہ کرنا یا غیر اللہ کے لیے ذبح کرنا۔
شرک اصغر:
جیسے غیر اللہ کی قسم کھانا، تعویذ وغیرہ جو حصول نفع یا دفع ضرر کے لیے لٹکائی جاتی ہے اور تھوڑی ریاکاری جیسے کسی کو دیکھ کر اچھی طرح نماز ادا کرنا۔

ج- اللہ کے سوا غیب کوئی نہیں جانتا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(کہہ دیجئے کہ آسمانوں والوں میں سے زمین والوں میں سے سواۓ اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا، انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھا کھڑے کیے جائیں گے؟) (سورۂ نمل: 65)

ج- 1- اللہ تعالی پر ایمان۔
2- اس کے فرشتوں پر ایمان۔
3- اس کی کتابوں پر ایمان۔
4- اس کے رسولوں پر ایمان۔
5- یوم آخرت پر ایمان۔
6- بھلی اور بری تقدیر پر ایمان۔
ان کی دلیل صحیح مسلم میں مروى مشہور حدیث جبریل ہے، جبریل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: آپ مجھے ایمان کے بارے میں بتائیں، آپ نے فرمایا: ’’ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور اچھی وبری تقدیر پر ایمان لائے‘‘۔

ج- اللہ تعالی پر ایمان:
آپ اس بات پر ایمان لائیں کہ اللہ تعالی نے ہی آپ کو پیدا کیا ہے، روزی دی ہے اور وہی اکیلا تمام مخلوقات کا مالک اور مدبر ہے۔
وہی عبادت کے لائق ہے، کوئی اور نہیں۔
وہ عظیم ہے، بڑا ہے، ایساکامل ہے کہ ہر قسم کی تعریف اسی کے لیے لائق وزیبا ہے، اس کے بہترین نام اور عالی صفتیں ہیں، اس کا کوئی شریک نہیں اور کوئی اس کے جیسا نہیں، اس کی ذات پاکیزہ ہے۔
فرشتوں پر ایمان:

یہ اللہ کی مخلوقات ہیں جنہیں اللہ تعالی نے نور سے اپنی عبادت اور اپنے حکم کی مکمل تعمیل کے لیے پیدا کیا ہے۔
ان میں سے ایک فرشتہ جبریل علیہ السلام ہیں جو نبیوں کے پاس وحی لاتے ہیں۔
آسمانی کتابوں پر ایمان:
یہ وہ کتابیں ہیں جو اللہ تعالی نے اپنے رسولوں پر نازل کیں۔
جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا۔
عیسی علیہ السلام پر انجیل۔
موسی علیہ السلام پر تورات۔
داود علیہ السلام پر زبور۔
صحف ابراہیم کو اہیم علیہ السلام پر اور صحف موسى کو موسی علیہ السلام پر۔
رسولوں پر ایمان:
یہ وہ ہستیاں ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے پاس بھیجا تاکہ انہیں تعلیم دیں، بھلائی اور جنت کی خوشخبری سنائیں اور برائی اور جہنم سے ڈرائیں۔
ان میں سب سے افضل اولو العزم ہیں، اور وہ ہیں:
نوح علیہ السلام۔
ابراہیم علیہ السلام۔
موسی علیہ السلام۔
عیسی علیہ السلام۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔
آخرت کے دن پر ایمان:
اور یوم آخرت: موت کے بعد قبر کے اندر کی زندگی، قیامت کے دن اور قبروں سے اٹھاۓ جانے اور حساب وکتاب کے دن کو شامل ہے،جب جنتی اپنے محلوں میں اور جہنمی اپنے ٹھکانوں میں قرار پکڑیں گے۔
بھلی بری تقدیر پر ایمان:

تقدیر: اس بات کے اعتقاد کو کہتے ہیں کہ جو کچھ بھی کائنات میں وقوع پذیر ہوتا ہے اللہ تعالی کو اس کا علم ہے، اس نے اسے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے، اس نے اس کے وجود میں آنے کو چاہا اور اسے پیدا کیا۔
فرمان باری تعالی ہے:
(بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک مقررہ وقت پر پیدا کیا ہے) [سورۃ القمر: 49]
تقدیر کے چار مراتب ہیں:
پہلا: اللہ تعالی کا علم، جس میں یہ شامل ہے کہ اللہ تعالی کو ہر چیز کے بارے میں پہلے سے ہی معلوم ہے، اس کے وقوع سے پہلے بھی اور اس کے وقوع کے بعد بھی۔
اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:
"بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے۔ کوئی (بھی) نہیں جانتا کہ کل کیا (کچھ) کرے گا؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا۔ (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ ہی پورے علم واﻻ اور صحیح خبروں واﻻ ہے"۔ [سورۂ لقمان: 34]
دوسرا: کہ اللہ تعالی نے یہ سب لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے، چنانچہ جو کچھ بھی ہوتا ہے یا ہوگا سب اللہ کے یہاں تحریر شدہ ہے۔
اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:
"اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں (خزانے) ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے۔ اور وه تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہیں اور جو کچھ سمندر میں ہیں اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وه اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں۔"[59] [ سورۂ أنعام: 59]
تیسرا: ہر چیز اللہ تعالی کی مشیت کے تابع ہے، جو کچھ بھی اس کی یا اس کی کسی مخلوق کی جانب سے صادر ہوتا ہے وہ اس کی مرضی سے ہی ہوتا ہے۔
اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:
"اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی راه پر چلنا چاہےاور تم بغیر رب العالمین کے چاہے کچھ نہیں چاه سکتے"۔ [سورۂ تکویر: 28، 29]
چوتھا: پوری کائنات اللہ تعالی کی مخلوق ہے، اللہ تعالی نے انہیں، ان کی صفتوں اور حرکتوں کو اور ان میں موجود ہر شی کو پیدا کیا ہے۔
اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:
(حاﻻنکہ تمہیں اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے)۔[96] [سورۂ صافات: 96]۔

ج- قرآن اللہ تعالی کا کلام ہے، مخلوق نہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
”اگر مشرکین میں سے کوئی تم سے پناہ چاہے تو اس کو پناہ دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔“ [سورۂ توبہ: 6]

ج- سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل یا تقریر یا آپ کی شکل وصورت اور اخلاق سے متعلق باتوں کو کہا جاتا ہے۔

ج- بدعت دین سے متعلق ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جو لوگوں نے ایجاد کر لی حالاں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کے دور میں موجود نہ تھی۔
ہم اسے قبول نہیں کرتے بلکہ رد کرتے ہیں۔
کیونکہ آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے:
ہر بدعت گمراہی ہے''۔ (سنن ابی داود)
بدعت کی مثال: عبادت میں زیادتی، جیسے وضو کرتے وقت کسی عضو کو چار بار دھونا، اور میلاد النبی کا جشن منانا، کیوں کہ یہ چیزیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ سے ثابت نہیں ہیں۔

ج- ولاء کہتے ہیں: مومنوں سے محبت اور ان کی مدد کرنے کو۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور) دوست ہیں)۔ [سورۂ توبہ: 71]
براء کا اطلاق کافروں سے نفرت وعداوت پر ہوتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (تمہارے لیے حضرت ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے، جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں، ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ، ہم میں تم میں ہمیشہ کے لیے بغض وعداوت ظاہر ہو گئی) [سورۂ ممتحنہ: 4]

ج- اللہ تعالی اسلام کے سوا کوئی دین قبول نہیں کرے گا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جاۓ گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا)۔ [سورۂ آل عمران: ٨٥]

ج- قول کی مثال: اللہ تعالی یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہنا۔
عمل کی مثال: قرآن کی توہین یا غیر اللہ کو سجدہ کرنا۔
اعتقاد کی مثال: اس بات کا عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالی کے علاوہ بھی کوئی عبادت کے لائق ہے یا کوئی اور خالق بھی ہے۔

ج-
1- نفاق اکبر: جو کہ دل میں کفر کو چھپانے اور ایمان کے ظاہر کرنے کو کہتے ہیں۔
اور یہ کفر اکبر ہے جس کے سبب انسان دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (منافق تو یقینا جہنم کے سب سے نیچے کے طبقہ میں جائیں گے، ناممکن ہے کہ تو ان کا کوئى مددگار پالے)۔ [سورۂ نساء: ١٤٥]
2: نفاق اصغر:
جیسے دروغ گوئی، وعدہ خلافی اور خیانت۔
یہ گناہ ہے اور اس کا کرنے والا عذاب سے بھى دو چار ہو سکتا ہے لیکن اس سے انسان کافر نہیں ہوتا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کہے تو جھوٹ بولے‘ جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے)۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)

ج- محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(لوگو، تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ نہیں لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول اورخاتم النبیین ہیں) [سورۂ احزاب: ٤٠] رسول اللہ ﷺ نے مزید فرمایا: میں خاتم النبیین (آخری نبی) ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں''۔ ابوداود اور ترمذی وغیرہ نے اس کی روایت کی ہے۔

ج- معجزہ: وہ خارق عادات چیزیں جو اللہ تعالی نے اپنے نبیوں کو ان کی سچائی ثابت کرنے کے لیے عطا کیں، جیسے:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چاند کے دو ٹکڑے کرنا۔
اور موسی علیہ السلام کی خاطر سمندر میں راستہ بنا دینا اور فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کو غرق آب کرنا۔

ج- صحابی: وہ ہے جس نے ایمان کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور اسلام ہى پر جس کی موت ہوئی۔
ہمیں ان سے محبت ہے، ہم ان کی اقتدا کرتے ہیں اور وہ انبیا کے بعد افضل ترین ہستیاں ہیں۔
اور ان میں سب سے افضل خلفاۓ اربعہ:

ابو بکر رضی اللہ عنہ،
عمر رضی اللہ عنہ،
عثمان رضی اللہ عنہ،
اور علی رضی الله عنہ ہیں۔

ج- وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں)۔ [سورۂ احزاب: ٦]

ج- ہم ان سے محبت کریں، ان کے دشمنوں سے بغض رکھیں، ان کی شان میں غلو نہ کریں۔ آل بیت سے مراد: آپ کی ازواج مطہرات، اولاد، نیز بنی ہاشم اور بنی مطلب کے اہل ایمان ہیں۔

ج- ہم پرواجب ہے: ان کا احترام کرنا، معصیت کے سوا ہر چیز میں ان کی اطاعت کرنا، ان کے خلاف بغاوت نہ کرنا اور سری طور پر ان کے لیے خیر خواہی اور دعا کرنا۔

ج- جنت۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (ایمان اور نیک اعمال والوں کو اللہ تعالی بہتی ہوئی نہروں والی جنتوں میں داخل کرے گا) [سورۂ محمد: 12]

ج- جہنم۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں جسے کافروں کے لئے تیار کیا گیا ہے)۔ [سورۂ بقرۃ : 24]

ج- خوف: اللہ تعالی اور اس کی سزا سے ڈرنے کا نام ہے۔
رجا: اللہ تعالی کے ثواب، اس کی مغفرت اور رحمت کى امید رکھنے کو کہتے ہیں۔
اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:
(جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں، خود وه اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیاده نزدیک ہوجائے، وه خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوف زده رہتے ہیں، بیشک تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہی ہے۔) [ سورۂ إسراء: 57] اسی طرح اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے: (میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت ہی بخشنے والا اور بڑا ہی مہربان ہوں، اور ساتھ ہی میرے عذاب بھی نہایت دردناک ہے)۔ [سورۂ حجر: 49، 50]

ج- اللہ، الرب، الرحمن، السمیع، البصیر، العلیم، الرزاق، الحی، العظیم۔ ۔ ۔ وغیرہ۔

ج- اللہ: اس کے معنی ہیں معبود برحق کے جس کا کوئی شریک نہیں۔
الرب: یعنی خالق، مالک، رازق اور تدبیر کرنے والا۔
السمیع:
جو ہر ایک آواز کو سنتا ہے، جس کی بھی ہو جیسی بھی ہو۔
البصیر:
جو ہر چھوٹی بڑی چیز کو دیکھتا ہے۔
العلیم: جس کا علم ماضی، حال اور مستقبل کی ہر چیز کو محیط ہے۔
الرحمن:
جس کی رحمت ہر مخلوق اور ہر ذی روح کو شامل ہے، تمام بندے اور ساری مخلوقات اس کی رحمت کے سایہ میں ہیں۔
الرزاق:
انسانوں، جنوں اور تمام جانداروں کی روزی جس کے ذمہ ہے۔
الحی:
جسے کبھی موت نہیں آ سکتی، جبکہ ہر ذی روح کو مرنا ہی ہے۔
العظیم:
جو ہر طرح کی صفت کمال سے متصف ہے اور جس کے سارے نام، صفتیں اور تمام افعال اس کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں۔

ج- ہم ان سے محبت کریں، مسائل و شرعی نوازل میں ان کی طرف رجوع کریں اور ہمیشہ ان کا ذکر خیر کریں۔ جو ان کی برائی کرتا ہے وہ راہ راست سے بھٹکا ہوا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(اللہ تعالی تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لاۓ ہیں اور جو علم دیے گئے ہیں درجہ بلند کر دے گا، اور اللہ تعالی ہر اس کام سے جو تم کرتے ہو خوب خبردار ہے)۔ [سورۂ مجادلہ: 11]

ج- مومن اور متقی بندے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
”یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وه غمگین ہوتے ہیں، یہ وه لوگ ہیں جو ایمان ﻻئے اور برائیوں سے پرہیز رکھتے ہیں۔“ [سورۂ یونس: 62، 63]۔

ج- ایمان قول، عمل اور اعتقاد کا مجموعہ ہے۔

ج- ایمان اطاعت سے بڑھتا اور معصیت سے گھٹتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے، تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتیں ہیں، تو وه آیتیں ان کے ایمان کو اور زیاده کردیتی ہیں اور وه لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔" [سورۂ أنفال: 2]

”تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم یہ کیفیت ضرور ہونی چاہیے کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔“

ج- دو شرطوں کے ساتھ:
1- جب وہ اللہ تعالی کے لئے خالص ہو۔
2- جب وہ سنت نبوی کے موافق ہو۔

ج- تحصیل منفعت اور دفع ضرر کے لیے اسباب اختیار کرتے ہوۓ اللہ تعالی پراعتماد کرنے کو توکل کہا جاتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
”جو شخص اللہ پر توکل کرے گا، اللہ اسے کافی ہوگا“۔ [سورہ الطلاق آیت: 3]
حسبہ یعنی اسے کافی (ہوگا)۔

ج- اس کے معنی ہیں ہر اس کام کا حکم دینا جس میں اللہ کی اطاعت ہو اور ہر اس چیز سے روکنا جس میں اللہ تعالی کی نافرمانی ہو۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہو)۔ [سورۂ آل عمران: ١١٠]

ج- جو قول، عمل اور اعتقاد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کی موافقت کرتے ہیں۔
اور انہیں اہل سنت کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ بدعت سے دامن کش ہو کر سنت نبوی کی پیروی کرتے ہیں۔
اور جماعت کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ حق پر اکٹھے ہیں اور فرقہ بازی نہیں کرتے۔