تفسیر

ج- سورۂ فاتحہ اور اس کی تفسیر:
﴿بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ للّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمـنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} سورۂ فاتحہ:1-7]
تفسیر:

یہ سورہ فاتحہ اس لئے کہلاتى ہے کہ اس سے قرآن کریم کا آغاز ہوتا ہے۔
1- (بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 1) "اللہ کے نام سے، اس سے مدد طلب کرتے ہوۓ اور اس کے نام سے برکت حاصل کرتے ہوۓ قرآن کی تلاوت شروع کرتا ہوں"۔
(اللہ) یعنی معبود برحق اور یہ نام اللہ تعالی کے لیے خاص ہے کسی اور کو یہ نام نہیں دیا جاسکتا۔
(الرحمن) یعنی لامحدود اور بے پناہ رحمتوں والا، جس کی رحمت کے دائرے سے کوئی چیز باہر نہیں۔
(الرحیم) مومنوں پر رحم کرنے والا۔
2- (الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ 2) "ہر قسم کی تعریف وتوصیف اللہ تعالی کے لیے ہے جو کہ رب العالمین ہے" ۔
3- (الرحمن الرحیم3) "ہر چیز پر رحم کرنے والا اور مومنوں پر بالخصوص رحم کرنے والا"۔
(مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ 4) "بدلہ کے دن (یعنی قیامت کے دن) کا مالک"۔
(إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ 5) یعنی" ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں"۔
(اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ 6)" ہمیں سیدھی راہ پر ثابت قدم رکھ" جو کہ اسلام اور سنت کی راہ ہے"۔
(صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ 7) "ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کی"، یعنی نبیوں اور ان کے متبعین کی راہ، یہود ونصاری کی نہیں۔
اور اس کے بعد (آمین) [یعنی اے اللہ قبول فرما] کہنا سنت ہے۔

ج- سورۂ زلزلہ اور اس کی تفسیر:
﴿بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِمِ﴾ (شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے)۔
﴿إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا﴾(جب زمین پوری طرح جھنجھوڑ دی جائے گی)۔ ﴿وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا﴾ (اور اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی)۔ ﴿وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا﴾ (اور انسان کہنے لگے گا کہ اسے کیا ہوگیا؟) ﴿يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا ﴾ (اس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کردے گی)۔ ﴿بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَا ﴾ (اس لیے کہ تیرے رب نے اسے حکم دیا ہوگا)۔ ﴿يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِيُرَوْا أَعْمَالَهُمْ ﴾ (اس روز لوگ مختلف جماعتیں ہو کر (واپس) لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں)۔ ﴿فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ﴾ (سو جو کوئی ذرہ بھر بھی نیکی کرے گا اسے دیکھ لے گا) ﴿وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ 8﴾ (اور جس کسی نے ذرہ بھر بھی بدی کی ہوگی اسے بھی دیکھ لے گا)۔ [سورۂ زلزلہ: 1-8]۔
تفسیر:
1- جب قیامت کے دن زمین پوری طرح ہلا دی جاۓ گی۔
2- اور زمین اپنے اندر موجود مردے وغیرہ کو نکال پھینکے گی۔
3- اور انسان حیرت زدہ ہو کر کہے گا کہ کیوں یہ زمین تھر تھرا رہی ہے اور حرکت پر حرکت کررہى ہے؟!
4- اس عظیم دن زمین بتائے گی کہ اس کے اوپر کیا بھلائی اور کیا برائی کی گئی۔
5- کیوں کہ اللہ تعالی اسے یہ باتیں بتلاۓ گا اور بتانے کا حکم دے گا۔
6- وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ 8 وہ ہولناک دن جب زمین میں زلزلہ بپا ہوجاۓ گا‘ لوگ حساب وکتاب کی جگہ سے جوق در جوق نکلیں گے تاکہ دنیا میں اپنے کیے ہوئے اعمال کا مشاہدہ کر سکیں۔
(فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ 7) جو چھوٹی سی چیونٹی کے برابر بھی نیکی کرے گا اسے اپنے سامنے دیکھے گا۔
(وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ 8) اور جو اتنی ہی برائی کرے گا اسے اپنے سامنے پاۓ گا۔

ج- سورۂ عادیات اور اس کی تفسیر:
﴿بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِمِ (شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے)۔
﴿وَالْعَادِيَاتِ ضَبْحًا ﴾( ہانپتے ہوئے دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم!) ﴿فَالْمُورِيَاتِ قَدْحًا ﴾(پھر ٹاپ مار کر آگ جھاڑنے والے گھوڑوں کی قسم!) ﴿فَالْمُغِيرَاتِ صُبْحًا ﴾ (پھر صبح کے وقت دھاوا بولنے والے گھوڑوں کی قسم) ﴿فَأَثَرْنَ بِهِ نَقْعًا ﴾ (پس اس وقت گرد وغبار اڑاتے ہیں) ﴿فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعًا ﴾ (پھر اسی کے ساتھ فوجیوں کے درمیان گھس جاتے ہیں). ﴿إِنَّ الْإِنْسَانَ لِرَبِّهِ لَكَنُودٌ ﴾ (یقیناً انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے) ﴿وَإِنَّهُ عَلَى ذَلِكَ لَشَهِيدٌ ﴾ (اور یقیناً وه خود بھی اس پر گواه ہے) ﴿وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ ﴾ (یہ مال کی محبت میں بھی بڑا سخت ہے)۔ ﴿أَفَلَا يَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُورِ ﴾ (کیا اسے وه وقت معلوم نہیں جب قبروں میں جو کچھ ہے نکال لیا جائے گا) ﴿وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُورِ ﴾ (اور سینوں کی پوشیده باتیں ظاہر کر دی جائیں گی) ﴿إِنَّ رَبَّهُمْ بِهِمْ يَوْمَئِذٍ لَخَبِيرٌ﴾ (بیشک ان کا رب اس دن ان کے حال سے پورا باخبر ہوگا)۔ [سورۂ عاديات: ١ - ١١]
تفسیر:
(1) اللہ تعالی نے ان گھوڑوں کی قسم کھائی ہے جو اتنی تیزی سے دوڑتے ہیں کہ ان کے ہانپنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔
(2) نیز ان گھوڑوں کی قسم کھائی ہے جو اتنے زور سے پتھروں پر ٹاپ مارتے ہیں کہ چنگاری نکل آتی ہے۔
(3) اور ان گھوڑوں کی قسم کھائی ہے جو صبح دم دشمنوں پر دھاوا بولتے ہیں۔
(4) اور ان کے دوڑنے کی وجہ سے گرد اڑتی ہے۔
(5) پس اپنے سواروں کے ساتھ دشمنوں کی صفوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔
(6) انسان اس خیر کو بڑا روکنے والا ہے جو اس کا رب اس سے چاہتا ہے۔
(7) اور وہ بذات خود اپنے خیر سے باز رہنے کا گواہ ہے اور اس بات کے واضح ہونے کى بنا پر اس کا انکار بھى نہیں کر سکتا۔
(8) اور دولت کی بے انتہا محبت میں وہ بخیلی کرتا ہے۔
(9) جب اللہ تعالی مردوں کو زندہ کرے گا اور حساب وکتاب اور جزا وسزا کے لیے انہیں زمین سے باہر نکالے گا تو کیا دنیاوی زندگی سے فریب کھانے والا یہ انسان یہ نہیں جان جاۓ گا کہ معاملہ ویسا نہیں تھا جیسا وہ گمان کرتا تھا۔
(10) اور نیت، اعتقاد یا جو کچھ بھی دلوں میں ہوگا وہ با ہر آ جاۓ گا۔
(11) اس دن ان کا رب ان کے حال سے پوری طرح باخبر ہوگا‘ اس سے بندوں کی کوئی بھی چیز مخفی نہیں ہوگی‘ اور اللہ تعالی انہیں اس کا بدلہ دے گا۔

ج- سورۂ قارعہ اور اس کی تفسیر:
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
(کھڑکھڑا دینے والی۔ کیا ہے وه کھڑکھڑا دینے والی۔ آپ کو کیا معلوم کہ وہ کھڑکھڑا دینے والی کیا ہے۔ جس دن انسان بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہو جائیں گے۔ اور پہاڑ دھنے ہوئے رنگین اون کی طرح ہو جائیں گے۔ پھر جس کے پلڑے بھاری ہوں گے۔ وه تو دل پسند آرام کی زندگی میں ہوگا۔ اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے۔ اس کا ٹھکانا ہاویہ ہے۔ آپ کو کیا معلوم کہ وہ کیا ہے۔ وه تند وتیز آگ ہے)۔ [سورۂ قارعہ: 1-11]۔
تفسیر:
(1) قیامت جو اپنی سخت ہولناکی کے سبب دلوں کا سکون چھین لے گی۔
(2) کیا ہے یہ قیامت جو اپنی سخت ہولناکی کے سبب دلوں کا سکون چھین لے گی؟
(3) اے رسول! آپ کو کس نے بتایا کہ وہ قیامت کیا ہے قیامت جو اپنی سخت ہولناکی کے سبب دلوں کا سکون چھین لے گی؟ یقینا وہ قیامت کا دن ہے۔
(4) جو دن لوگوں کے دلوں کو خوف میں مبتلا کردے گا اس دن لوگوں کی حالت بکھرے ہوۓ پروانو کی سی ہو گی۔
(5) اور پہاڑ دھنے ہوۓ اون کی طرح بے وزن اور ہلکے ہوکر چل رہے ہوں گے۔
(6) تو جس کے نیک اعمال اس کے برے اعمال سے زیادہ ہوں گے۔
(7) وہ جنت میں خوشی کی زندگی گزارے گا۔
(8) اور جس کے برےاعمال اس کے نیک اعمال سے زیادہ ہوں گے۔
(9) تو بروز قیامت اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔
(10) اے اللہ کے رسول، آپ کو کیا معلوم وہ کیا ہے؟
(11) وہ بڑی تیز آگ ہے۔

ج- سورۂ تکاثر اور اس کی تفسیر:
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
(زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کردیا۔ یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے۔ ہرگز نہیں تم عنقریب معلوم کر لو گے۔ ہرگز نہیں پھر تمہیں جلد علم ہو جائے گا۔ ہرگز نہیں اگر تم یقینی طور پر جان لو۔ بیشک تم جہنم دیکھ لو گے۔ اور تم اسے یقین کی آنکھ سے دیکھ لو گے۔ پھر اس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کا سوال ہوگا)۔ [سورۂ تکاثر: 1-8]
تفسیر:
(1) اے لوگو! مال ودولت اور آل واولاد پر فخر ومباہات نے تم کو اطاعت الہی سے غافل کردیا ہے۔
(2) یہاں تک کہ تمہیں موت آگئی اور تم قبروں کے اندر چلے گئے۔
(3) تمہیں یہ سزاوار نہیں کہ فخر ومباہات تمہیں اطاعت الہی سے غافل کیے رکھے‘ عنقریب تم اس غفلت کا برا انجام دیکھ لوگے۔
(4) پھر عنقریب تم اس غفلت کا برا انجام دیکھ لوگے۔
(5) حقیقت میں اگر تم یقینی طور پر جان لیتے کہ تمہیں دوبارہ زندہ ہوکر اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہ تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دے گا‘ تو تم مال ودولت اور آل واولاد پر فخر ومباہات کرنے میں مشغول نہ رہتے۔
(6) اللہ کی قسم تم ضرور قیامت کے دن جہنم دیکھو گے۔
(7) تم ضرور قیامت کے دن یقینی طور پر جہنم دیکھو گے
(8) پھر اس دن اللہ تعالی تم سے ضرور ان نعمتوں کے متعلق سوال کرے گا جو اس نے تمہیں صحت اور دولت وغیرہ کی شکل میں عطا کی تھیں۔

ج- سورۂ عصر اور اس کی تفسیر:
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
(زمانے کی قسم! بے شک انسان سرتا سر نقصان میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے، جو ایمان ﻻئے، نیک عمل کیے اور (جنھوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی)۔ [سورۂ عصر: 1-3]
تفسیر:
1- اللہ تعالی نے وقت کی قسم کھائی۔
2- کہ سارے انسان نقصان اور ہلاکت میں ہیں۔
3- لیکن جو ایمان لاۓ، نیک اعمال کیے اور حق کی طرف بلایا اور اس راہ میں صبر کیا وہ خسارہ میں نہیں ہیں۔

ج- سورۂ ہمزہ اور اس کی تفسیر:
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
(بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے واﻻ غیبت کرنے واﻻ ہو. جو مال کو جمع کرتا جائے اور گنتا جائے۔ وه سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس سدا رہے گا۔ ہرگز نہیں یہ تو ضرور توڑ پھوڑ دینے والی آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ ایسی آگ کیا ہوگی؟ وه اللہ تعالیٰ کی سلگائی ہوئی آگ ہوگی۔ جو دلوں پر چڑھتی چلی جائے گی۔ وہ ان پر ہر طرف سے بند کی ہوئی ہوگی۔ بڑے بڑے ستونوں میں)۔ [سورۂ همزة: ١ - ٩]
تفسیر:
1- خرابی اور سخت عذاب ہے ہر اس شخص کے لیے جو غیبت اور عیب جوئی میں لگا رہے۔
2- جس کا واحد مقصد ہے مال جمع کرنا اور اسے گن گن کے رکھنا اس کے سوا اس کا کوئى بھى مقصد نہیں۔
2- وہ اس گمان میں رہتا ہے کہ جو مال وہ جمع کر رہا ہے‘ وہ اسے موت سے بچا لے گا اور وہ دنیا میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
(4) حقیقت ایسی نہیں جیسا یہ نادان تصور کرتا ہے‘ بلکہ اسے جہنم کی اس آگ میں پھینکا جائے گا جس کا عذاب اتنا سخت ہوگا کہ ہر چیز کو توڑ مروڑ کر رکھ دے گا۔
5- اے رسول، آپ کو کیا معلوم کہ ایسی آگ کیا ہے جو اپنے ڈالى گئى ہر چیز کو توڑ ڈالے گى؟
6- بے شک یہ اللہ تعالی کی سلگتی ہوئی آگ ہے۔
7- جو سینے کو چیر کر دلوں تک پہنچ جاۓ گی۔
8- اور یہ ہر طرف سے بند ہوگی۔
9- بڑے لمبے ستونوں سے (جن سے جہنم کے دروازے بند کیے جائیں گے) تاکہ وہ نکل نہ پائیں۔

ج- سورۂ فیل اور اس کی تفسیر:
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
(کیا تو نے نہ دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا ان کے مکر کو بےکار نہیں کردیا؟ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیئے۔ جو انہیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے۔ پس انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا)۔ [سورۂ فیل: 1-5]
تفسیر:
1- اے پیغمبر، کیا آپ کو علم نہیں ہوا آپ کے رب نے ابرہہ اور اس کے لاؤ لشکر کے ساتھ کیا کیا جب وہ کعبہ کو مسمار کرنے کے لیے آۓ تھے۔
2- اللہ نے کعبہ کو منہدم کرنے کی ناپاک کوشش کو ناکام کردیا‘ چنانچہ نہ ان کی یہ آرزو پوری ہوئی کہ لوگوں کو کعبہ سے پھیر دیں‘ اور نہ ہی کعبہ کو کوئی نقصان پہنچا سکے۔
3- اور ان کے اوپر ایسے پرندوں کو بھیج دیا جو جھنڈ کے جھنڈ ان کے پاس آرہےتھے۔
4- جو انہیں کنکریوں سے مار رہے تھے۔
5- پس اللہ نے انہیں ان پتوں کی طرح بنا دیا جنہیں جانوروں نے روند ڈالا ہو اور کھا لیا ہو۔

ج- سورۂ قریش اور اس کی تفسیر:
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
(قریش کے مانوس کرنے کے لئے۔ (یعنی) انہیں جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کے لئے۔ (اس کے شکریہ میں)۔ انہیں چاہئے کہ اسی گھر کے رب کی عبادت کرتے رہیں۔ جس نے انہیں بھوک میں کھانا دیا اور ڈر (اور خوف) میں امن (وامان) دیا)۔ [سورۂ قریش: 1-4]
تفسیر:
1- اس سے مراد سردی اور گرمی کا وہ سفر ہے جس سے وہ مانوس تھے۔
2- یعنی سردی میں یمن اور گرمی میں شام کا پر امن سفر
3- انہیں صرف بیت اللہ کے رب کی عبادت کرنی چاہئے‘ جس نے ان کے لیے یہ سفر میسر فرمایا اور انہیں اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہیں ٹھہرانا چاہئے۔
4- جس نے انہیں بھوک کے بدلے کھانا اور خوف کے بدلے امن وامان دیا اور وہ اس طرح کہ عرب کے دلوں میں حرم اور وہاں کے رہنے والوں کی تعظیم ڈال دی۔

ج- سورۂ ماعون اور اس کی تفسیر:
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
(کیا تو نے (اسے بھی) دیکھا جو (روز) جزا کو جھٹلاتا ہے؟ یہی وه ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ اور مسکینوں کے کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔ سو بڑی خرابی ہے ایسے نمازیوں کے لیے، جو اپنی نماز سے غافل ہیں جو ریاکاری کرتے ہیں اور برتنے کی چیز روکتے ہیں)۔ [سورۂ ماعون: 1-7]
تفسیر:
1- کیا آپ نے اسے پہچانا جو قیامت کے دن کے بدلہ کو جھٹلاتا ہے۔
2- یہی یتیم کو اس کی ضرورت پوری کرنے کے بجاۓ نہایت بے دردی کے ساتھ دھکے دیتا ہے۔
3- اور نہ خود غریبوں کو کھانا کھلاتا ہے اور نہ دوسروں کو اس کی ترغیب دیتا ہے۔
4- پس ان نمازیوں کے لیے عذاب اور ہلاکت ہے۔
5- جو اپنی نماز سے غافل ہوتے ہیں اور ان کا خیال نہیں کھتے یہاں تک کہ ان کا وقت نکل جاتا ہے۔
6- جن کے اعمال اور نماز میں ریاکاری ہوتی ہے، اخلاص نہیں ہوتا۔
7- اور ان چیزوں میں بھی لوگوں کی مدد نہیں کرتے جن میں انہیں کوئی نقصان نہیں ہوتا۔

ج- سورۂ کوثراور اس کی تفسیر:
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
(یقیناً ہم نے تجھے (حوض) کوﺛر (اور بہت کچھ) دیا ہے۔ پس تو اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔ یقیناً تیرا دشمن ہی ﻻوارث اور بے نام ونشان ہے)۔ [سورۂ کوثر: 1-3]
تفسیر:
(1) اے رسول! ہم نے آپ کو بہت سی بھلائیوں سے نوازا‘ ان میں کوثر نامی نہر بھی ہے جو جنت میں بہتی ہے۔
(2) اس لیے آپ اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کیجئے‘ صرف اسی کی عبادت کیجئے اور اسی کے لیے قربانی کیجئے‘ برخلاف مشرکوں کے جو کہ بتوں کے نام پر قربانی کرکے ان کی قربت حاصل کرتے ہیں۔
(3) سچ یہ ہے کہ آپ سے جو نفرت کرتا ہے وہی خیر وبھلائی سے محروم ہے اور اسے کوئی یاد نہیں کرتا اور کوئی یاد کرتا بھی ہے تو اس کی برائی ہی کرتا ہے۔

ج- سورۂ کافرون اور اس کی تفسیر:
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
(آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو! نہ میں عبادت کرتا ہوں اس کی جس کی تم عبادت کرتے ہو۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ اور نہ میں اس کی عبادت کروں گا جس کی تم عبادت کرتے ہو۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کر رہا ہوں۔ تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے)۔ [سورۂ كافرون: ١ - ٦]
تفسیر:
1- اے پیغمبر آپ کہہ دیں کہ اے اللہ کا انکار کرنے والو!
2- جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو ان کی میں کبھى عبادت نہیں کرسکتا نہ ابھى اور نہ ہی مستقبل میں۔
3- اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں یعنی اللہ تعالی کی۔
4- اور نہ میں تمہارے ان بتوں کی عبادت کروں گا۔
5- اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں یعنی اللہ تعالی کی۔
6- تمہارے لیے تمہارا یہ خود ساختہ دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے جو اللہ تعالی نے مجھ پر نازل کیا ہے۔

ج- سورۂ نصر اور اس کی تفسیر:
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
(جب اللہ کی مدد اور فتح آپہنچے۔ اور آپ لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق در جوق داخل ہوتے دیکھ لیں۔ تو اپنے رب کی تسبیح کرنے لگیں حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگیں، بے شک وه بڑا ہی توبہ قبول کرنے واﻻ ہے)۔ [سورۂ نصر: 1-3]
تفسیر:
1- اے رسول! جب آپ کے دین کو اللہ تعالی کی طرف سے نصرت اور غلبہ حاصل ہو جاۓ اور مکہ فتح ہو جاۓ۔
2- اور آپ لوگوں کو جماعت در جماعت اسلام میں داخل ہوتے ہوۓ دیکھ لیں۔
(٣) تو آپ جان لیں کہ یہ اس مشن کے اختتام کی علامت ہے جس کے لیے آپ کو مبعوث کیا گیا‘ اس لیے آپ اپنے رب کی تسبیح بیان کریں حمد کے ساتھ‘ نصرت وفتح کی نعمت پر شکرانے کے طور پر‘ اور اللہ سے مغفرت کی دعا کریں‘ یقینا وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے‘ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا اور انہیں اپنی مغفرت سے نوازتا ہے۔

ج- سورۂ مسد اور اس کی تفسیر:
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
(ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وه (خود) ہلاک ہو گیا۔ نہ تو اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی۔ وه عنقریب بھڑکنے والی آگ میں جائے گا۔ اور اس کی بیوی بھی (جائے گی،) جو (جہنم میں) لکڑیاں ڈھونے والی (ہوگی)۔ اس کی گردن میں پوست کھجور کی بٹی ہوئی رسی ہوگی)۔ [سورۂ فیل: 1-5]
تفسیر:
1- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو لہب بن عبد المطب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں یعنی اس کے عمل برباد ہو جائیں کیوں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچاتا تھا اور اس کی محنت رائیگاں گئی۔
2- اس کی دولت اور اس کی اولاد اس کے کسی کام نہیں آئی، نہ اسے نجات ملی اور نہ کوئی رحمت نصیب ہوئی۔
3- قیامت کے دن اسے دہکتی آگ میں ڈالا جاۓ گا جس کی گرمی سے وہ بدحال ہوگا۔
4- اس کی بیوی ام جمیل بھی جہنم میں جائے گی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں کانٹے ڈال کر آپ کو اذیت دیتی تھی۔
5- اس کی گردن میں مضبوط بٹی ہوئی رسی ڈال کر اسے جہنم کی طرف گھسیٹا جاۓ گا۔

ج- سورۂ اخلاص اور اس کی تفسیر:
بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِمِ
(آپ کہہ دیجیے کہ وه اللہ تعالیٰ ایک (ہی) ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے، نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ اور کوئی اس کا ہمسر نہیں)۔ [سورۂ إخلاص : 1-4].
تفسیر:

1- اے رسول آپ کہہ دیں کہ وہی اللہ تعالی ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔
2- اللہ بے نیاز ہے اور سب کے اس کے محتاج ہیں یعنى مخلوقات کی ضرورتیں اس کی بارگاہ میں پیش کی جاتی ہیں۔
جس نے نہ کسی کو جنم دیا اور نہ اسے کسی نے جنم دیا‘ چنانچہ اس پروردگار کی نہ کوئی اولاد ہے نہ والد۔
4- اور اس کی مخلوقات میں کوئی اس کے جیسا نہیں۔

ج- سورۂ فلق اور اس کی تفسیر:
بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِمِ
(آپ کہہ دیجئے کہ میں صبح کے مالک کی پناہ لیتا ہوں۔ تمام مخلوقات کے شر سے۔ اور اندھیرا کرنے والی (رات) کے شر سے جب وہ چھا جائے۔ اور گره (لگا کر ان) میں پھونکنے والیوں کے شر سے (بھی)۔ اور حسد کرنے والے کی برائی سے بھی جب وه حسد کرے)۔ [سورۂ فلق : 1-5]۔
تفسیر:
1- اے رسول! آپ کہ دیجئے کہ میں صبح کے رب کا سہارا لیتا ہوں اور اس کی پناہ میں آتا ہوں۔
ہر طرح کی موذی مخلوق سے۔
اور اللہ تعالی کی پناہ لیتا ہوں ان تمام اذیتوں سے جو جانوروں اور چوروں کی طرف سے رات کو ہو سکتی ہیں۔
اور اللہ کى پناہ میں آتا ہوں ان جادوگرنیوں کے شر سے بھى جو گرہوں میں پھونکتی ہیں۔
اور ہر اس انسان کے شر سے جو لوگوں سے نفرت کرتے اور حسد کرتے ہیں جب ان سے حسد کریں اور یہ تمنا کریں کہ ان کی نعمتیں چھن جائیں اور وہ تکلیف میں مبتلا ہو جائیں۔

ج- سورۂ ناس اور اس کی تفسیر:
بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِمِ
(آپ کہہ دیجیے کہ میں پناه میں آتا ہوں لوگوں کے رب کی۔ لوگوں کے مالک کی۔ لوگوں کے معبود کی۔ وسوسہ ڈالنے والے پیچھے ہٹ جانے والے کے شر سے۔ جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ (خواه) وه جن میں سے ہو یا انسان میں سے)۔ [سورۂ ناس: 1-6]۔
تفسیر:
1- اے رسول! آپ کہ دیجئے کہ میں لوگوں کے رب کا سہارا لیتا ہوں اور اس کی پناہ میں آتا ہوں۔
2- جو تمام لوگوں کا مالک ہے‘ اپنی مشیت سے ان میں تصرف کرتا ہے‘ اس کے سوا ان کا کوئی مالک نہیں۔
3- جو لوگوں کا حقیقی معبود ہے اس کے سوا ان کا کوئی معبود برحق نہیں۔
اس شیطان کے شر سے جو لوگوں میں اپنا وسوسہ ڈالتا ہے۔
5- جو اپنے وسوسے کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لیتا ہے۔
6- یہ وسوسہ ڈالنے والا انسانوں میں سے بھی ہو سکتا ہے اور جنوں میں سے بھی۔