اذکار اور دعائیں
ج- نبیﷺ کا فرمان ہے: ((مَثَلُ الَّذِي يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لاَ يَذْكُرُ رَبَّهُ، مَثَلُ الحَيِّ وَالمَيِّتِ))
”اس شخص کی مثال جو اپنے رب کا ذکر کرتا ہے اور جو اپنے رب کا ذکر نہیں کرتا، ایسی ہی ہے جیسے زندہ اور مردہ کی مثال ہے۔“ (صحیح بخاری)
کیوں کہ انسان کی زندگی کی قدر وقیمت اتنی ہی ہے جتنا وہ اللہ تعالی کا ذکر کرتا ہے۔
ج- «اللهم لك الحمد أنت كسوتنيه، أسألك خيره وخير ما صنع له، وأعوذ بك من شره وشر ما صنع له» ’’اے اللہ ! تیرے ہی لیے ہر قسم کی تعریف ہے، تجھی نے مجھے یہ پہنایا، میں تجھی سے سوال کرتاہوں اس کی بھلائی کا اور اس کام کی بھلائی کا جس کے لیے اسے بنایا گیا ہے اور میں تیری پناہ میں آتا ہوں اس کے شر سے اور اس کام کے شر سے جس کےلیے اسے بنایا گیا ہے۔‘‘ امام ابوداود اور امام ترمذی نے اسے روایت کیا ہے۔
ج- نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا۔ [صحیح مسلم] اور یہ دعا کہنا: «اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلاَةِ القَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الوَسِيلَةَ وَالفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ».
"اے اللہ اس کامل دعوت اور قائم ہونے والی نماز کے رب! محمدﷺ کو قرب اور فضیلت عطا فرما اور انہیں مقام محمود پر کھڑا کر جس کا تو نے وعدہ کیا ہے"۔ صحیح بخاری
اور اذان واقامت کے درمیان دعا کریں کیوں کہ اس وقت دعا رد نہیں ہوتی۔
ج- 1- آیۃ الکرسی [سورۂ بقرہ: 255]: "اللہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو زنده اور سب کا تھامنے واﻻ ہے، جسے نہ اونگھ آئے نہ نیند، اس کی ملکیت میں زمین اور آسمانوں کی تمام چیزیں ہیں، کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے، وه جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وه اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جتنا وه چاہے، اس کی کرسی کی وسعت نے زمین و آسمان کو گھیر رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی حفاﻇت سے تھکتا نہیں ہے، وه تو بہت بلند اور بہت بڑا ہے"۔ [سورۂ بقرۃ : ٢٥٥] 2- اور پڑھیں:بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ (آپ کہہ دیجیے کہ وه اللہ تعالیٰ ایک (ہی) ہے۔ اللہ بے نیاز اور سب کے اس کے محتاج ہیں ہے۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔ اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے)۔ [سورۂ اخلاص 1-4] (تین بار) بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِمِ (آپ کہہ دیجئے کہ میں صبح کے مالک کی پناہ لیتا ہوں۔ تمام مخلوقات کے شر سے۔ اور اندھیرا کرنے والی (رات) کے شر سے جب وہ چھا جائے۔ اور گره (لگا کر ان) میں پھونکنے والیوں کے شر سے (بھی)۔ اور حسد کرنے والے کی برائی سے بھی جب وه حسد کرے)۔ [سورۂ فلق 1-5](تین بار) بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِمِ (آپ کہہ دیجیے کہ میں پناه میں آتا ہوں لوگوں کے رب کی ۔ لوگوں کے مالک کی۔ لوگوں کے معبود کی۔ وسوسہ ڈالنے والے پیچھے ہٹ جانے والے کے شر سے۔ جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ (خواه) وه جن میں سے ہو یا انسان میں سے)۔ [سورۂ ناس1-6] (تین بار) 3- «اللهم أنت ربي لا إله إلا أنت، خلقتني وأنا عبدك، وأنا على عهدك ووعدك ما استطعت، أعوذ بك من شر ما صنعت، أبوء لك بنعمتك علي، وأبوء بذنبي، فاغفر لي، فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت»
’’اے اللہ! تو ہی میرا رب ہے، تیرے سواکوئی سچا معبود نہیں، تو نے مجھے پیدا فرمایا اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں اپنی طاقت کےمطابق تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں، میں تجھ سے اس چیز کےشر سے پناہ مانگتا ہوں جس کا میں نے ارتکاب کیا، میں تیرے سامنے تیرے انعام کا اقرار کرتا ہوں جو مجھ پر ہوا اور میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں، لہذا تو میرى مغفرت فرمادے، واقعہ یہ ہے کہ تیرے سوا کوئی گناہوں کى مغفرت کوئى نہیں کرسکتا۔‘‘ (صحیح بخاری)
ج- بسم الله، والحمد لله ﴿سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ 13 وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ 14﴾، «الحمد لله، الحمد لله، الحمد لله، الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر، سبحانك اللهم إني ظلمت نفسي فاغفر لي؛ فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت» اللہ کے نام سے (سفر کا آغاز کرتا ہوں) اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، (پاک ذات ہے اس کی جس نے اسے ہمارے بس میں کر دیا حالانکہ ہمیں اسے قابو کرنے کی طاقت نہ تھی۔ اور بالیقین ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں)، «تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے۔ اے اللہ، تیری ذات پاک ہے۔ میں نے خود پر ظلم کیا ہے میرى مغرفت فرما کیوں کہ تیرے سوا کوئی گناہوں کى مغفرت نہیں کر سکتا»۔ امام ابوداود اور امام ترمذی نے اسے روایت کیا ہے۔
ج- «الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر ﴿سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ 13 وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ 14﴾، اللهم إنا نسألك في سفرنا هذا البر والتقوى ومن العمل ما ترضى، اللهم هون علينا سفرنا هذا، واطو عنا بعده، اللهم أنت الصاحب في السفر، والخليفة في الأهل، اللهم إني أعوذ بك من وعثاء السفر، وكآبة المنظر، وسوء المنقلب، في المال والأهل» "اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے (پاک ذات ہے اس کی جس نے اسے ہمارے بس میں کر دیا حالانکہ ہمیں اسے قابو کرنے کی طاقت نہ تھی، اور بالیقین ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں)۔ اے اللہ، اس سفر میں ہم تجھ سے نیکی، تقوی اور ایسے عمل کی توفیق طلب کرتے ہیں جس سے تو راضی ہو جاۓ، اے اللہ، ہمارے سفر کو آسان فرما اور اس کی مسافت کم کر دے، اے اللہ، تو ہی سفر کا ساتھی اور اہل وعیال کا محافظ ہے، اے اللہ، میں تیری پناہ چاہتا ہوں سفر کی شدت سے، ایسے منظر سے جو غمگین کر دے اور اس بات سے کہ مال واہل کو کوئی برائی لاحق ہو"۔
نبی اکرم ﷺ سفر سے واپسی پر بھی یہی الفاظ کہتے اور ان میں یہ اضافہ کرتے :
’’(ہم) واپس لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، اور اپنے رب ہی کی تعریف کرنے والے ہیں۔‘‘ [صحیح مسلم]
ج- «لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك، وله الحمد، يحيي ويميت، وهو حي لا يموت، بيده الخير، وهو على كل شيء قدير»
’’اللہ کے سوا کوئی برحق معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہت اور سب تعریف اسی کے لیے ہے، وہی زندگی دیتا اور وہی مارتا ہے اور وہ زندہ ہے مرتا نہیں، اسی کے ساتھ میں سب بھلائی ہے اور وہ ہر چیز پر (کامل) قدرت رکھتا ہے۔‘‘ اسے ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
«اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ»
”اے اللہ! محمد پر اور آل محمد پر رحمت نازل فرما، جیسے تو نے ابراہیم پر اور آل ابراہیم پر رحمت نازل کی ہے، بے شک تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے، اسی طرح محمد پر اور آل محمد پر برکت نازل فرما، جیسے ابراہیم پر اور آل ابراہیم پر برکت نازل کی ہے، بے شک تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے۔“ صحیح بخاری وصحیح مسلم۔