قسم حدیث
امیر المؤمنين ابو حفص عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: «إنما الأعمال بالنيات، وإنما لكل امرئ ما نوى، فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله؛ فهجرته إلى الله ورسوله، ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها، أو امرأة ينكحها؛ فهجرته إلى ما هاجر إليه» ”تمام اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کے لئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیّت کی، چنانچہ جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ہی کی طرف ہوگی، اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لئے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہو اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے ہوگی جس کے لیےاس نے ہجرت کی ہو۔“ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ:
1- نماز، روزہ، حج غرضیکہ ہر عمل کے لیے نیت ضروری ہے۔
2- نیت کو اللہ کے لئے خالص کرنا ضروری ہے۔
حدیث نمبر (2)
ام المؤمنين ام عبداللہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: «من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه، فهو ردٌّ» جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ:
1- دین میں بدعت کى ممانعت۔
2- ایجاد کردہ اعمال مردود اور ناقابل قبول ہیں۔
حدیث نمبر (3)
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: "ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص آیااس کے کپڑے بہت سفید اور بال بہت کالے تھے، اس پر سفر کے آثار بھی نہیں دکھائی دے رہے تھے اور ہم میں سے کوئی اسے جانتا بھی نہیں تھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کے پاس آ کر بیٹھا، اپنے گھٹنے کو آپ کے گھٹنے سے لگا لیا اور اپنی ہتھیلیاں آپ کی رانوں پر رکھیں، پھر کہا: اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم)! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرو، زکاۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر اللہ کے گھر تک جانے کی استطاعت ہو تو اس کا حج کرو، وہ بولا: آپ نے سچ فرمایا، ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ آپ سے سوال کرتا ہے اور پھر خود ہی آپ کی تصدیق بھی کرتا ہے،پھر کہا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا : ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور ہراچھی وبری تقدیر پر ایمان لاؤ، وہ بولا : آپ نے سچ فرمایا، اس نے کہا: مجھے احسان کے بارے میں بتائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا : اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تو تمھیں دیکھ رہا ہے، وہ کہنے لگا: اب مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا :جس سے سوال کیا جا رہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، اس نے کہا: اچھا تو مجھے اس کی نشانیاں بتائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا: (نشانیاں یہ ہیں کہ) لونڈی اپنی مالک کو جنے گی، تم دیکھو گے کہ ننگے پاؤں، ننگے بدن، مفلس اور بکریاں چرانے والے بڑے بڑے محل تعمیر کریں گے اور ان پر فحر ومباہات کریں گے، اس کے بعد وہ چلا گیا، میں کچھ دیر تک ٹہرا رہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر ! کیا تم جانتے ہو کہ پوچھنے والا کون تھا ؟ میں نے کہا : اللہ اوراس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا : وہ جبریل (علیہ السلام) تھے، وہ تمھیں تمھارے دین کی باتیں سکھانے آئے تھے“۔ [صحیح مسلم]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ:
1- اسلام کے پانچ ارکان ہیں:
’’لا الٰہ الّا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کی گواہی۔
نماز قائم کرنا۔
زکوۃ دینا۔
رمضان کے روزے رکھنا۔
اور بیت اللہ کا حج کرنا۔
2- ایمان کے ارکان چھ ہیں:
اللہ تعالیٰ پر،
اس کے فرشتوں پر،
اس کی کتابوں پر،
اس کے رسولوں پر،
یوم آخرت پر
اور بھلی اور بری تقدیر پر ایمان لانا۔
3- احسان کا ذکر جوکہ ایک ہی رکن ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ اللہ کی اس طرح عبادت کریں گویا آپ اسے دیکھ رہے ہیں، اگر یہ تصور نہیں کرسکتے تو اتنا تو خیال ضرور رکھیں کہ وہ آپ کو دیکھ رہا ہے۔
4- قیامت کب ہوگی اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
حدیث نمبر 4
ج- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "أَكْمَلُ المُؤمِنِينَ إِيمَاناً أَحسَنُهُم خُلُقاً" ”مومنین میں سب سے کامل ایمان والا وہ شخص ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو۔“ اسے امام ترمذى نے روایت کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
اس حدیث سے مستنبط چند فوائد:
1- اچھے اخلاق کی ترغیب۔
2- کمال اخلاق کمال ایمان میں سے ہے۔
3: ایمان میں کمی اور زیادتی ہوتی ہے۔
حدیث نمبر (5)
ج- ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من حلف بغير الله فقد كفر أو أشرك''۔ ”جس شخص نے غیر اللہ کی قسم کھائی تو اس نے کفر کیا یا شرک کیا۔“ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ:
غیر اللہ کی قسم کھانا جائز نہیں۔
غیر اللہ کی قسم کھانا شرک اصغر ہے۔
حدیث نمبر (6)
ج- انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لا يؤمِنُ أحدُكم حتى أَكونَ أَحَبَّ إليه من والِدِه ووَلَدِه والناس أَجْمَعِين" ” تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والدین، اس کے بال بچوں اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔“ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
فوائد:
1- نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام لوگوں سے زیادہ محبت کرنا واجب ہے۔
اور یہ کمال ایمان میں سے ہے۔
حدیث نمبر (7)
ج- انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا يؤمن أحدكم؛ حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه» تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
فوائد:
1- مومن کو چاہیے کہ جیسے خود کے لیے خیر کو پسند کرتا ہے اسی طرح اپنے مومن بھائیوں کے لیے بھی پسند کرے۔
اور یہ کمال ایمان میں سے ہے۔
حدیث نمبر (8)
ج- ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «والذي نفسي بيده! إنها لتعدل تعدل ثلث القرآن» "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یقینا یہ (سورۂ اخلاص) ایک تہائی قرآن کے مساوی ہے"۔ (صحیح بخاری)
فوائد:
1- سورۂ اخلاص کی فضیلت۔
2- سورۂ اخلاص ایک تہائی قرآن کے مساوی ہے۔
حدیث نمبر (9)
ج- ابو موسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا حول ولا قوة إلا بالله كنز من كنوز الجنة» "لا حول ولا قوۃ الا باللہ جنت کا ایک خزانہ ہے"۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
فوائد:
1- اس کلمہ کی فضیلت کہ یہ جنت کا ایک خزانہ ہے۔
بندہ کا اپنی طاقت وقوت کو بھلا کر صرف اللہ تعالی پر بھروسہ کرنا۔
حدیث نمبر (10)
ج- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوۓ سنا: ((ألا وإن في الجسدِ مُضغَةً: إذا صلَحَتْ صلَح الجسدُ كلُّه، وإذا فسَدَتْ فسَد الجسدُ كلُّه، ألا وهي القلبُ)) ”یاد رکھو! بے شک جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ صحیح سالم ہوتا ہے تو پورا جسم صحیح سالم ہوتا ہے اور جب وہ خراب وفاسد ہو جاتا ہے تو پورا جسم خراب وفاسد ہو جاتا ہے، سنو! وہ ٹکڑا دل ہے"۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
فوائد:
1- اگر دل نیک ہو تو انسان کا ظاہر اور باطن دونوں درست ہوتے ہیں۔
2- دل کی نیکی اور صفائی پر توجہ دینا کیوں کہ اسی پر انسان کی صالحیت کا دار ومدار ہے۔
حدیث نمبر (11)
ج- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من كان آخر كلامه: لا إله إلا الله؛ دخل الجنة» ’’جس کا آخری کلام لاالہ الا اللہ ہو گا ، وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘۔ (سنن ابو داود)
فوائد:
(لا الہ الا اللہ) کی فضیلت کہ بندہ اس کے سبب جنت میں داخل ہوگا۔
2: اور دنیا سے جدا ہوتے وقت آخری بات لا الہ الا اللہ ہونے کی فضیلت۔
حدیث نمبر (12)
ج- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کے حسن اسلام میں یہ شامل ہے کہ وہ اس چیز کو چھوڑ دے جس سے اسے کوئی سروکار نہیں۔“ یہ حدیث ترمذی وغیرہ نے روایت کی ہے۔
فوائد:
1- دوسروں کے دینی اور دنیاوی معاملات سے دور رہنا جن سے انسان کو کوئی وابستگی نہ ہو۔
2- ایسا کرنا انسان کے کمال اسلام میں شامل ہے۔
حدیث نمبر (14)
ج- عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ کی کتاب (قرآن) سے ایک حرف پڑھے تو اس کے لیے اس کے بدلے ایک نیکی ہے اور ایک نیکی (کا اجر) اس جیسی دس نیکیوں کے برابر ہے، میں نہیں کہتا کہ آلٓم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے اور لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔‘‘ یہ حدیث امام ترمذی نے روایت کی ہے۔
فوائد:
1- تلاوت قرآن کی فضیلت۔
2- ہر حرف پر دس نیکیاں ملیں گی۔